ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر 📅 دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات: ایک سنگین ماحولیاتی و معاشرتی مسئلہ 📅 کی پیداوار شروع کر دی F-47 امریکا نے سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے 📅 جرثوموں سے جینوم تک 📅 یہ زندگی کا سوال ہے 📅 ’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ 📅 ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔! 📅 لاہور: بچے کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے والا اوباش گرفتار 📅 کراچی، رضویہ میں پولیس مقابلہ، ایک ملزم زخمی حالت میں گرفتار، اسلحہ برآمد 📅 پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی تازہ صورتحال! آئی ایم ایف پروگرام! معیشت پر فیصلہ کن موڑ! پاکستان کیلئے بڑی خبر!ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر 📅 دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات: ایک سنگین ماحولیاتی و معاشرتی مسئلہ 📅 کی پیداوار شروع کر دی F-47 امریکا نے سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے 📅 جرثوموں سے جینوم تک 📅 یہ زندگی کا سوال ہے 📅 ’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ 📅 ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔! 📅 لاہور: بچے کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے والا اوباش گرفتار 📅 کراچی، رضویہ میں پولیس مقابلہ، ایک ملزم زخمی حالت میں گرفتار، اسلحہ برآمد 📅 پاکستان اسٹاک مارکیٹ کی تازہ صورتحال! آئی ایم ایف پروگرام! معیشت پر فیصلہ کن موڑ! پاکستان کیلئے بڑی خبر!

’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔ ؟

یاد رکھیے! علم، تقویٰ کے ساتھ ہو تو نُور بنتا ہے، اور جب وہ تکبّر، حسد یا ریاکاری کے ساتھ جُڑ جائے تو فتنہ بن جاتا ہے

دینِ اسلام کی بنیاد سادگی، اخلاص، عاجزی اور اﷲ کی رضا پر ہے۔ دین کی دعوت کا مقصد دلوں کی اصلاح، اخلاق کی بہتری، اور انسان کو اس کے رب سے جوڑنا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات کچھ علمائے کرام اور خطباء کے درمیان ایسی مقابلہ بازی دیکھنے کو ملتی ہے جو ان اعلیٰ مقاصد کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔

مجالسِ وعظ و نصیحت، جو کہ دلوں کو نرم کرنے، آنکھوں کو اشک بار کرنے اور ایمان کو تازہ کرنے کا ذریعہ ہونی چاہیے، بعض اوقات شہرت، تعریف، یا زیادہ سامعین جمع کرنے کی دوڑ بن جاتی ہیں۔ ایسی محافل میں بعض خطباء اپنی علمی فوقیت ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر تنقید، فقہی نکات میں بلاوجہ الجھاؤ، یا مخصوص اندازِ بیان پر طنز و تعریض کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجلس کا ماحول بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے، اخلاص مجروح ہوتا ہے، اور سننے والے دین کے روحانی اثرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بعض اوقات تو محفل ایسی غیر سنجیدہ بحث کا میدان بن جاتی ہے کہ دین کے سنجیدہ طلب گار نوجوان بددل ہو کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف دین کی خدمت سے دور ہے بل کہ اس کے اثرات معاشرے میں فرقہ واریت، گروہ بندی، اور فکری انتشار کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے! علم، تقویٰ کے ساتھ ہو تو نور بنتا ہے، اور جب وہ تکبر، حسد یا ریاکاری کے ساتھ جڑ جائے تو فتنہ بن جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور خطباء اپنے اندر نرمی، برداشت، اور باہمی احترام کو فروغ دیں۔ تقاریر کا اصل مقصد عوام کو دین کی طرف راغب کرنا، اﷲ سے تعلق مضبوط کرنا، اور اخلاقی و روحانی تربیت فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ اگر ہر خطیب یہ نیت لے کر منبر پر آئے کہ وہ صرف اﷲ کی رضا کے لیے بات کر رہا ہے، نہ کہ کسی اور سے بڑھنے کے لیے، تو دین کا پیغام دلوں تک زیادہ مؤثر انداز میں پہنچے گا۔

 مسجدوں کی امامت میں رقابت

امامت بلاشبہ ایک نہایت مقدس اور باوقار ذمہ داری ہے، جس کا مقصد لوگوں کو اﷲ کی طرف راغب کرنا، ان کے دینی معاملات کی اصلاح کرنا، اور امت کو جوڑنے والا کردار ادا کرنا ہے۔ مگر افسوس کہ بعض علاقوں میں یہی امامت ایک ایسا مقام بن جاتی ہے جس پر فخر، حسد اور رقابت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔

بعض امام صاحبان صرف اپنے مخصوص حلقے کے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں، جب کہ دوسرے علماء یا مساجد کے ائمہ کو نظرانداز یا کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی دوسری مسجد کا امام علم، اخلاص، تلاوت یا خطابت میں عوام میں مقبول ہو جائے تو بعض لوگ دل تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کو اپنی حیثیت کے خلاف سمجھا جاتا ہے، اور یوں بدگمانی، بداعتمادی، اور حتیٰ کہ سازشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایک ہی محلے کی دو مساجد جو ایک ہی کلمہ اور ایک ہی دین کی نمائندہ ہیں، ان کے درمیان فاصلہ اور تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) ان تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ امام حضرات ایک دوسرے کی خوبیوں کو تسلیم کریں، اور ان کی خدمات کو سراہیں، نہ کہ اپنی امامت کو ذاتی بادشاہت یا مسلکی بالا دستی کا ذریعہ بنائیں۔ محلے کی دو مساجد اگر آپس میں تعاون کریں، دینی اصلاح کے مشترکہ پروگرام رکھیں، اور ایک دوسرے کی مدد کریں تو اہلِ محلہ میں بھی وحدت پیدا ہوگی، نوجوان دین سے قریب آئیں گے اور فرقہ واریت یا مسلکی تعصب کی جڑیں خود بہ خود کم زور ہو جائیں گی۔

تمام علماء اور ائمہ کو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں کو وسیع کریں، اختلاف کو حسنِ نیّت سے لیں، اور اس مبارک منصب کو محض اپنے دائرہ اثر یا جماعت کی ترویج کے لیے استعمال نہ کریں۔ اصل کام یابی اس میں ہے کہ ہم اﷲ کے دین کی خدمت خلوص کے ساتھ کریں، چاہے اس کی پذیرائی ہمیں ملے یا کسی اور کو۔ کیوں کہ اجر کا وعدہ اﷲ کے ہاں ہے، اور وہ نیتوں کو جانتا ہے۔

 مدارس میں شخصیات کا ٹکراؤ

تعلیم و تربیت کے ادارے انسان سازی کے مراکز ہوتے ہیں، جہاں طلبہ صرف کتابیں نہیں پڑھتے بل کہ شخصیات سے اثر لیتے ہیں۔ جب یہی ادارے کسی ایک شخصیت کی ضد، انا یا برتری کی کش مکش کا شکار ہو جائیں تو علم کی روح متاثر ہوتی ہے۔ بعض مدارس میں ناظم، شیخ الحدیث، یا کسی بزرگ استاذ کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف دھیرے دھیرے عام طالب علم تک سرایت کر جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں طلبہ گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور تعلیم کے بہ جائے شخصیت پرستی، دفاع اور مخالفت کا مزاج پروان چڑھنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علم کا وقار متاثر ہوتا ہے، اور وہ خلوص و للہیت جو دینی مدارس کی پہچان ہے، آہستہ آہستہ کم ہونے لگتی ہے۔ قرآن مجید میں باہمی تنازعات کے نقصانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جھگڑے انسان کو کم زور کر دیتے ہیں اور اس کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔

ایسے حالات میں ذمے داری صرف انتظامیہ یا اساتذہ پر نہیں بل کہ تمام متعلقہ افراد پر عاید ہوتی ہے کہ وہ ان اداروں کو فکری تربیت کے مراکز ہی بنائے رکھیں۔ ایک دوسرے کے اختلاف کو عزت اور حکمت سے برداشت کریں اور طلبہ کے سامنے اپنی ذاتی رائے کو علمی اسلوب میں پیش کریں نہ کہ محاذ آرائی کی شکل میں۔ یہ احتیاط مدارس کے تقدس کو محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

شاگردوں میں استادی حسد

جب کوئی شاگرد علم و عمل میں ترقی کر کے خود میدانِ دعوت و اصلاح میں نمایاں ہو جائے، تو بسا اوقات بعض اساتذہ کے دل میں خوشی اور فخر کے بہ جائے حسد کی چنگاری جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اس کے کردار یا کام میں مثبت پہلو دیکھنے کے بہ جائے اس کی معمولی خامیوں کو بڑا کر کے پیش کرتے ہیں۔ اس کی کام یابی کو سراہنے کے بہ جائے اس میں کیڑے نکالتے ہیں، اور بعض اوقات اس کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ یہ رویّہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بل کہ علم کی روح کے بھی خلاف ہے، کیوں کہ علم کا اصل مقصد انسان کو بڑا دل، وسعتِ ظرف اور عاجزی سکھانا ہے۔ ایک استاد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شاگرد کی ترقی کو اپنی محنت کا پھل سمجھے، اور اس پر فخر کرے۔ اگر کسی شاگرد میں واقعی غلطی یا ناپختگی ہو، تو استاد کو چاہیے کہ وہ نرمی اور خیرخواہی کے ساتھ اس کی اصلاح کرے، نہ کہ عوامی سطح پر تنقید یا تحقیر کرے۔ یعنی وہ خیرخواہی سے خامی دکھاتا ہے، نہ کہ تحقیر سے۔

کچھ دینی اداروں کا باہمی تعصب

ہر دینی ادارہ اپنی جگہ ایک اہم فریضہ انجام دے رہا ہے۔ ان اداروں کی محنت سے قرآن و سنت کی روشنی عام ہو رہی ہے، معاشرہ بیدار ہو رہا ہے، اور نئی نسل میں دینی شعور پیدا ہو رہا ہے۔ تاہم، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات کچھ ادارے ایک دوسرے کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔

کوئی ادارہ اپنی خدمت کو سب سے اعلیٰ سمجھتا ہے اور دوسروں کی جدوجہد کو کم تر یا ناقص قرار دیتا ہے۔ اس رویے سے نہ صرف دعوت کا کام متاثر ہوتا ہے بل کہ امت کے درمیان تفریق بھی جنم لیتی ہے۔ عوام مختلف گروہوں میں بٹ جاتی ہے، اور اخوت کی جگہ مسلکی برتری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کریم نے امت کو ’’ایک جماعت‘‘ بن کر نیکی اور تقویٰ پر تعاون کا حکم دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کی خدمات کو سراہیں، اور دین کے کام کو مقابلہ نہیں بل کہ تعاون سمجھیں۔ اگر ہر ادارہ اخلاص کے ساتھ دوسروں کی عزت کرے اور اپنے حصے کا چراغ روشن رکھے، تو پورا معاشرہ نُور سے بھر سکتا ہے۔

فتویٰ بازی اور شخصیت پرستی

علماء کا منصب عدل، اخلاص اور بردباری کا متقاضی ہے، لیکن جب فتویٰ ذاتی انا، مسلکی تعصب یا دوسروں کو نیچا دکھانے کا ذریعہ بن جائے تو یہ نہ صرف علم کی توہین ہے بل کہ امت میں انتشار کا سبب بھی بنتا ہے۔ بعض اوقات معمولی فقہی اختلاف کو عقیدے کا جھگڑا بنا کر دوسروں کے خلاف فتوے دیے جاتے ہیں، جس سے عوام الجھن، تفرقہ اور بداعتمادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے رویے نہ صرف دین کے فہم کو محدود کرتے ہیں بل کہ نوجوان نسل کو دین سے دور بھی کرتے ہیں۔ قرآن میں عدل اور گواہی میں انصاف کا حکم دیا گیا ہے، جو ہر عالم کے لیے قابل غور ہے۔ سچے علم کا تقاضا یہ ہے کہ اختلاف رائے کو دلائل، محبت اور حسنِ سلوک سے پیش کیا جائے، نہ کہ الزام تراشی سے۔ ہمیں فتویٰ کو اصلاح کا ذریعہ بنانا ہے، نہ کہ اپنی شخصیت کو چمکانے کا ہتھیار۔

خطابت میں حسد کا اظہار

بعض خطیب دوسرے خطیب کی مقبولیت، اندازِ بیان یا علمی اثر کو برداشت نہیں کرسکتے تو وہ اپنی تقریروں میں اشاروں کنایوں سے اس پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل محض حسد کی علامت نہیں بل کہ دعوت کے وقار کے خلاف بھی ہے۔ ایسے بیانات سننے والوں کے دلوں میں انتشار پیدا کرتے ہیں اور ان کی توجہ اصلاح کی بہ جائے شخصیتوں کی خامیوں کی طرف چلی جاتی ہے۔ یہ رویہ دینی ماحول کو نفرت، بدگمانی اور فرقہ واریت کی طرف لے جاتا ہے۔ خطیب کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو صاف رکھے، اخلاص سے بات کرے، اور دوسروں کی کام یابی پر دل میں خوشی محسوس کرے۔

 دینی مقابلوں میں غیر اخلاقی رجحانات

دینی تقریری، قرأت، نعت اور تحریری مقابلے دراصل دینی شعور اجاگر کرنے اور صلاحیتوں کے اظہار کا ایک بابرکت ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد نوجوانوں کے دلوں میں دین سے محبت پیدا کرنا اور ان کی فکری و روحانی تربیت کرنا ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ بعض اوقات ان مقابلوں کا رخ اصل مقصد سے ہٹ کر دنیاوی شہرت، انعامات اور ذاتی برتری کی طرف ہو جاتا ہے۔ جب نیت خالص نہ رہے، تو زبان سے نکلا ہوا کلام بھی دل پر اثر نہیں ڈالتا۔ ایسے ماحول میں کچھ شرکاء ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ججوں کو متاثر کرنے اور خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ نتیجتاً حسد، غرور اور بغض جنم لیتے ہیں، جو روحانی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن مجید میں اخلاص کو اﷲ کی قربت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل کا ظاہر جتنا بھی خوب صورت ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

دینی مقابلوں کا اصل حسن اس وقت ہوتا ہے جب اس میں حصہ لینے والا ہر فرد اپنے کلام، تلاوت یا نعت کو رب کی رضا کے لیے پیش کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ اس لیے ان مقابلوں کو اخلاص اور تقویٰ کا ذریعہ بنانا چاہیے، نہ کہ ریاکاری اور خود نمائی کا۔ اگر تربیت کے ذریعے شرکاء میں عاجزی، تعاون، اور ایک دوسرے کی خوبیوں سے خوش ہونے کا جذبہ پیدا کیا جائے، تو یہ مقابلے دین کے لیے واقعی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہ صورت دیگر، یہ صرف انا کی تسکین اور روحانی زوال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

طلبہ کو گروہی تعصب میں رنگ دینا

اساتذہ کی ذمے داری صرف کتابوں کا علم دینا نہیں بل کہ طلبہ کی فکری، اخلاقی اور سماجی تربیت بھی ہے۔ بعض تعلیمی اداروں میں ایسا رجحان دیکھا گیا ہے کہ نوجوان طلبہ کو غیر محسوس طریقے سے مخصوص مسلک، جماعت یا مکتبِ فکر کے خلاف منفی باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں طلبہ کے دلوں میں دوسروں کے لیے نفرت، تنگ نظری اور فرقہ واریت کی جڑیں مضبوط ہونے لگتی ہیں۔ ایک ایسا نوجوان جو اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھنے لگے، وہ کبھی معاشرے میں اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ طلبہ کو ایسی فضا میں پروان چڑھانا کہ جہاں تنقید سیکھنے سے زیادہ تعصب سکھایا جائے، ایک بڑے اجتماعی نقصان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں عدل و انصاف اور دوسرے کے مؤقف کو سنے بغیر رائے قائم نہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ میں وسعتِ نظر، باہمی احترام اور اتحاد کی روح پیدا کریں، نہ کہ گروہی وابستگیوں کو ہوا دیں۔ ایسی تربیت یافتہ نسل ہی امت کی فکری راہ نمائی اور وحدت کی بنیاد بن سکتی ہے۔

اخلاص کی کمی، دین کی دعوت پر ضرب

جب دین کی دعوت خالص نیت سے ہٹ کر شہرت، مقبولیت یا کسی دوسرے کو نیچا دکھانے کا ذریعہ بن جائے، تو اس کا اثر بجائے دلوں کو نرم کرنے کے، سختی اور ضد میں بدل جاتا ہے۔ خلوص ایک ایسی روحانی تاثیر رکھتا ہے جو سننے والے کے دل کو چیر کر اندر اترتی ہے، مگر جب بات محض اظہارِ قابلیت یا نام وری کے لیے کی جائے، تو وہ محض آواز بن کر رہ جاتی ہے۔ دین کا ہر کام، چاہے وہ تبلیغ ہو، درس ہو یا تحریر، اسی وقت بارآور ہوتا ہے جب اس کی بنیاد اخلاص پر ہو۔ جو بات دل سے نکلے اور رضائے الٰہی کی نیت سے کہی جائے، وہ بغیر دلیل کے بھی اثر رکھتی ہے۔ لہٰذا اخلاص کو نظرانداز کرنا گویا دین کی بنیاد کو کم زور کرنا ہے۔ دین کی اصل تاثیر زبان یا انداز میں نہیں، بل کہ دل کی سچائی میں پوشیدہ ہے۔

٭ حاصلِ کلام:

دینی حلقوں میں اگر حسد، رقابت اور باہمی کدورتیں جنم لیں، تو یہ نہ صرف انفرادی کردار کو داغ دار کرتی ہیں بل کہ پورے ماحول کو مسموم کر دیتی ہیں۔ یہ امر نہایت افسوس ناک ہے کہ جن لوگوں کو خیر و ہدایت کا منبع بننا چاہیے، وہ خود باہمی دشمنی کا شکار ہو جائیں۔ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ آیا ہمارا عمل واقعی دین کی خدمت ہے یا محض اپنے نفس کی تسکین ؟ خلوصِ نیت، تحمل، اور ایک دوسرے کی عزت و رائے کا احترام وہ صفات ہیں جن کے بغیر دعوتِ دین کی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ جب تک ہم خود کو ٹٹول کر اصلاح کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے، امت کی یک جہتی اور دین کی پکار دونوں کم زور ہوتی چلی جائیں گی۔

ڈاکٹر اقبال جواب شکوہ میں ہم سب سے مخاطب ہیں:

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اﷲ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ہمارے ساتھ شامل ہوں

مقبول خبریں

سلمان اقبال بٹ کو رپورٹ میں 10 مختلف معاملات پر رپورٹ میں وضاحت دینے کی ہدایت کی گئی ہے

ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر

دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات: ایک سنگین ماحولیاتی و معاشرتی مسئلہ

کی پیداوار شروع کر دی F-47 امریکا نے سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے

جرثوموں سے جینوم تک

یہ زندگی کا سوال ہے

’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔ ؟

ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔!

لاہور: بچے کے ساتھ نازیبا حرکات کرنے والا اوباش گرفتار

کراچی، رضویہ میں پولیس مقابلہ، ایک ملزم زخمی حالت میں گرفتار، اسلحہ برآمد

انٹرٹینمنٹ

رائے

متعلقہ

ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر

دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات: ایک سنگین ماحولیاتی و معاشرتی مسئلہ

کی پیداوار شروع کر دی F-47 امریکا نے سکستھ جنریشن لڑاکا طیارے

جرثوموں سے جینوم تک

یہ زندگی کا سوال ہے

’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘ ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔ ؟